Skip to main content

تربوز، ہندوانہ، بطیخ، حب حب، جھب، تاجور، واٹر میلن


تربوز، ہندوانہ، بطیخ، حب حب، جھب، تاجور، واٹر میلن

تحریروتحقیق:حکیم ڈاکٹرمحمدارشد
پھلوں کے طبی فواید سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر بعض موسمی پھلوں کے اپنی ہی خواص ہوتے ہیں۔ رب کائنات کا خاص احسان ہے کہ نے انسان کی خوراک کو بھی موسموں کی مناسبت سے پیدا فرمایا، تاکہ انسان موسموں کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکے۔ موسمی پھلوں میں موسم گرماں کا تحفہ’تربوز‘ بھی ایسے ہی حیرت انگیز طبی فواید سے بھرپور ہے جن کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں۔  تربوز کا شمار ایسے ہی پھلوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف انسان کو گرمی کی شدّت و حدت کے اثرات سے بہت حد تک محفوظ رکھتا ہے بلکہ دیگر کئی بیش بہاء فوائد کا بھی حامل ہے۔ تربوز کو اگر رب تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کے لئے گرمی کا تحفہ کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔ تربوز کو پنجابی میں ہندوانہ، عربی میں تربوز کو بطیخ اور حب حب دو مختلف نام دیئے گئے ہیں، حجازی میں جھب، انگریزی میں واٹر میلن اور ترکی میں تاجور کہتے ہیں۔


طب نبوی اورتربوز، ہندوانہ، بطیخ، حب حب، جھب، تاجور، واٹر میلن


امام ابن القیم الجوزیہؒ اپنی کتاب ’’طبِ نبوؐی‘‘ میں تربوز کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تربوز کے بارے میں تمام احادیث غیر مستند ہیں سوائے اس حدیث کے جسے امام ابو داؤد اور امام ترمزی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ نبی کریمؐ تربوز کو اکثر کجھور کے ساتھ کھایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہم اس کجھور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک کے ذریعے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کجھور کی گرمی کے ذریعے ختم کرتے ہیں۔ ( ابو داؤد، ترمزی)۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تربوز کو تر کھجوروں کے ساتھ کھایا کرتے اور فرماتے کہ تربوز کی گرمی اُس کی ٹھنڈک سے توڑی جاتی ہے اور اُس کی ٹھنڈک اُس کی گرمی سے۔(سنن ابوداؤد) ، نبی کریم تازہ پکی ہوئی کھجوروں کے ساتھ تربوز کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس کی گرمی کو اس کی ٹھنڈک مار دیتی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو اس کی گرمی مار دیتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تربوز کھانا بھی ہے اورمشروب بھی۔ یہ مثانہ کی صفائی کرتا ہے پیٹ کو صاف کرتا ہے، کمر سے پانی نکال دیتا ہے، قوت باہ میں اضافہ کرتا ہے، چہرے کو نکھارتا ہے اور جسم سے ٹھنڈک کو ختم کرتا ہے۔
نبی کریم نے فرمایا کہ کھانے سے پہلے تربوز کھانے سے پیٹ دھل کر صاف ہو جاتا ہے اور یہ بیماریوں کو نکال دیتا ہے۔ محدثین نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم کو تربوز بہت پسند تھے اور وہ انہیں شوق سے کھاتے تھے۔
محدثین کے مشاہدات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ زود ہضم ہے گردہ اورمثانہ سے پتھری نکال دیتا ہے معدہ کو صاف کرتا ہے، بخار کے مریضوں کو اسے سرکہ کی سکنجبین کے ساتھ دینا مفید رہتا ہے۔ ادرک یا سونٹھ کے ساتھ ملا کر کھانے سے ہاضمہ بہترین رہتا ہے۔ تربوز سے چہرے کے ورم اتر جاتے ہیں اور رنگت صاف ہوتی ہے۔ اگر کسی کو جسم میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے(جسم میں قوت مدافعت کی کمی کے باعث) تو وہ اسے ادرک کے ساتھ کھائے تربوز کھانے سے جسم میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے۔
تربوز دنیا کے اکثر گرم ممالک میں کثرت سے پایا جا تا ہے۔ دنیا کے بیشتر علاقوں میں تربوز کئی اشکال میں پیدا ہوتا ہے اور شکل کے اعتبار سے زیادہ تر گول اور لمبوترا ہوتا ہے، جبکہ رنگ کے اعتبار سے سبز جبکہ چھلکا سخت ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر افریقہ کا پھل ہے مشرق وسطیٰ کے ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ ہند و پاکستان میں بھی عام ملتا ہے امریکی ریاست کیلی فورنیا کا تربوز اپنی سرخی اور حلاوت میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ ریتلے علاقوں کا تربوز زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ دنیا میں اس وقت پاکستان کے ضلع سکھر کے علاوہ گڑھی یاسین کے تربوز ذائقہ اور حجم میں بہترین ہوتے ہیں۔ تربوز تقریباً ہر علاقے میں پایا جاتا ہے لیکن خاص طور پر پاکستان، بھارت، شمالی بنگال اور افغانستان میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ شام اور فلسطین میں بھی پایا جاتا ہے۔ تربوز کی عمدگی اس کے گودے کی سرخی اور مٹھاس سے ہوتی ہے۔ بعض پھل فروش ملاوٹ کرتے ہوئے تربوزوں میں انجکشن لگا کہ ان کو مصنوعی طور پر سرخ اور میٹھا کر لیتے ہیں۔ یہ پھل جلد خراب نہیں ہوتا
تربوز اپنے اندر پانی کا بے پناہ ذخیرہ رکھتا ہے۔ ایک تربوز میں 91.5 فی صد پانی ہوتا ہے جو انسانی جسم میں پانی کی ضرورت پوری کرنے میں نسخہ کیمیا ہے۔ ٹھنڈے اور خشک کمرے میں رکھنے سے اس کی شکل اورذائقہ پندرہ سے بیس دن تک برقرار رہ سکتا ہے۔ تربوز کے گودے کی رنگت سرخ، ذائقہ شیریں اور مزاج سرد تر ہوتا ہے اور اگر اسے خالی پیٹ استعمال کیا جائے تو بے حد فائدہ دیتا ہے۔ اسی طرح اگر تربوز کو شکر کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو مؤثر ہوتا ہے لیکن چاول کے ساتھ اس کا استعمال مضر ہوتا ہے، یعنی چاول کھانے سے پہلے کے بعد میں تربوز نہیں کھانا چاہئے۔
تربوز معدہ میں صفرا کی مقدار کو کم کرتا ہے اور پیاس کو بجھاتا ہے۔ خصوصاً اپریل، مئی اور جون کی گرمی میں اس کا استعمال جسمانی حرارت اور گرمی کم کرنے کے لئے اکثیر کا درجہ رکھتا ہے۔ اطباء کے نزدیک بوڑھے اور سرد مزاج کے حامل افراد کو تربوز زیادہ نہیں کھانا چاہئے۔ تربوز میں پانی زیادہ ہوتا ہے اس وجہ سے یہ گردے اور مثانے کی پتھری کے اخراج میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

شیخ الرئیس ابنِ سینا نے اپنی معروف کتاب ’’القانون‘‘ میں تربوز کے فوائد کا حوالے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معدے میں پہنچ کر انتہائی فائدہ مند صورت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے بیج جلد کی صفائی کے لئے انتہائی مفید ہوتے ہیں اور اگر اس کے چھلکے کا لیپ پیشانی پر کر دیا جائے تو آنکھوں کے امراض کے لئے مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
پرانے زمانے اور موجودہ جدید دور کے طبیب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ توبرز کو کھانے کے فوری بعد استعمال نہ کیا جائے، اس صورت میں یہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور خصوصاً ہیضہ کی شکایت ہوسکتی ہے۔ تربوز کھانا کھانے سے کم از کم ۲ گھنٹے پہلے یا ۲ گھنٹے بعد کھانا چاہیئے۔کھانے کے فوری بعد اس کے استعمال سے قولنج (پیٹ کا درد) یا تخمہ کا احتمال ہے۔ حکیم مظفر حسین نے اپنی کتاب ’’المفردات‘‘ میں تربوز کو تپ صفراوی، سوزش بول، سوزاک، یرقان اور اسہال صفراوی میں مفید بتایا ہے۔
لیکن اکثر لوگ تربوز میں موجود بیج کو پسند نہیں کرتے، لوگ اس کو فضول جان کے پھینک دیتے ہیں ۔ لوگ تربوز کے بیج کی افادیت سے واقف نہیں ہوتے، اسی لیے وہ ان کو پھینک دیتے ہیں۔
آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ تربوز کے بیج کتنے فائدہ مند ہیں۔ یہ فائدے جاننے کے بعدکے آپ تربوز کے بیج ہرگز نہیں پھینکیں گے۔
تربوز کے بیج غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان میں پروٹین بھی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس میں وٹامنز اور منرلز بھی شامل ہوتے ہیں۔ تربوز کے بیجوں میں پوٹاشیم ، میگنیشیم، زنک ، آئرن ، فاسفورس اور کاپر بھی موجود ہوتا ہے۔اس کے علاوہ تربوز کے بیجوں میں کیا کچھ موجود ہوتا ہے، وہ درج ذیل ہے۔
شوگر
تربوز کے بیج ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں۔ اگر ذیابیطس کے مریض مٹھی بھر تربوز کے بیج پانی میں ابال لیں اور پھر ان بیجوں کے پانی کو چائے کے طور پر پی لیں۔
٭جلد 
تربوز کے بیج آپ کی جلد کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہیں۔تربورز کے بیج   آپ کی جلد بہت چمکدار اور صحت مند بنا دیتے ہیں۔
بال اورناخن
تربوز کے بیجوں میں پروٹین وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے ، جوکہ آپ کے بالوں اور ناخنوں کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔ یہ بیج آپ کے بالوں اور ناخنوں کو ٹوٹنے سے روکتے ہیں۔ اگر آپ تربوز کے بیجوں کو بھون کے کھائیں گے تو اس سے آپ کے بال نرم اور چمکدار ہوجائیں گے۔
دل کی صحت
تربوز کے بیج ان لوگوں کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں جو ہائی بلڈ پریشر سے دوچار ہیں،چونکہ تربوز کے بیج میگنیشم سے مالامال ہوتے ہیں،لہذا ان کا استعمال بلڈ پریشر کے مریضوں کےلیے اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ ان بیجوں سے دل کی صحت بھی اچھی ہوتی ہے اور بلڈ پریشر بھی نارمل رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ ان بیجوں میں گڈ فیٹس اور آمینو ایسڈ کی موجودگی سے دل کی بیماری ہونے کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔
گردے
تربوز کے بیجوں سے گردے بھی صحت مند رہتے ہیں،گردوں کو صاف رکھنے کے لیے تربوز کے بیجوں کی چائے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔اس کے لیے آپ کو تربوز کے بیجوں کو پیس کے ابلتے ہوئے پانی میں مکس کرنا ہے، اس کے بعد تھوڑا ٹھنڈا ہونے کےبعد چائے کو پی لینا ہے۔اس چائے کو ہفتے میں تین بار پینا ہے،پینے سے پہلے اسے گرم ضرور کرلیں۔
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خون کے دباؤ کی زیادتی میں مغز تربوز کے اندر موجود خاص مادے ’’کوکر بوٹرین‘‘ سے بہت فائدے حاصل ہوتے ہیں، جس سے
۸۲ فیصد مریضوں میں دل پر سے بوجھ کم ہوتا ہے۔ تربوز کے بیج بدن کو فربہ کرتے ہیں، جبکہ خود تربوز میں ایک خاص قسم کا جزو ’’گلٹاتھی اون‘‘ موجود ہوتا ہے، جو سرطان کو بے بس کردیتا ہے۔ بعض ڈاکٹروں نے اس خاص جزو کو ایسے پہلوان سے تشبیہ دی ہے جو جسم کو نقصان پہنچانے والے خطرناک اجزاء کو پچھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرین کے نزدیک ’’گلٹاتھی اون‘‘ میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ سرطان کے خلیات کو قابو میں رکھتا ہے۔ یہ مادہ تربوز کے علاوہ دیگر پھلوں اور سبزیوں میں بھی پایا جاتا ہے، جس کے استعمال سے جسم کو بہت فائدہ ملتا ہے۔ جو لوگ ان سبزیوں اور پھلوں کو باقاعدہ استعمال کرتے ہیں ان میں سرطان سے محفوظ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جبکہ تربوز بالخصوص ’’گلٹاتھی اون‘‘ کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
تربوز کے استعمال سے آنتوں کی سختی میں کمی آتی ہے اور شریانوں کی لچک بھی قائم رہتی ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تربوز کے کثرتِ استعمال سے جوڑوں کے درد اور بلغم کے امکانات ہوتے ہیں، اس لئے تربوز کو ہمیشہ اعتدال سے کھانا چاہیئے۔ تربوز کھانے کے فوری بعد سکنجبین دہی اور کوئی شربت یا چائے وغیرہ کسی بھی قسم کی چیز استعمال نہیں کرنی چاہئے۔

تربوز کے طبی فوائد و استعمالات:
مرکز اطلاعات فلسطین نے اپنی ایک رپورٹ میں تربوز کے حیرت انگیزطبی خواص اور فواید پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ تربوز کس طرح انسانی صحت کے لیے توانائی کا بے بہا خزانہ ہے۔ وٹا من اے اور سی کی خوبیوں سے مالا مال تربوز انسانی جسم میں نمکیات کی کمی دور کرنے، جسمانی درجہ حرارت کو معمول پر رکھنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ غذائی خواص اور پوٹائیشیم جیسی خصوصیات سے لبریز تربوز آپ کو تندرست اور چاقوچوبند رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ آیئے اس کے اہم فواید جانتے ہیں۔
1.                  قوت حافظہ میں اضافہ اور دماغی تقویت
عموما لوگ تربوز کو زبان کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے کھاتے ہیں مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ تربوز میں وٹامن B6 کی وافر مقدار ہوتی ہے جو دماغ کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ قوت حافظہ کو بہتر بناتی ہے۔ تربوز کا پانی معدے میں جاتا ہے مگر اس کے اثرات دماغ پر مرتب ہوتے ہیں اور دماغ کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
2.                  پانی کی وافر مقدار
تربوز اپنے اندر پانی کا بے پناہ ذخیرہ رکھتا ہے۔ ایک تربوز میں 91.5 فی صد پانی ہوتا ہے جو انسانی جسم میں پانی کی ضرورت پوری کرنے میں نسخہ کیمیا ہے۔
3.                  الیکیوپین کی 40 فی صد مقدار
ایک گلاس تربوزکے پانی میں ٹماٹر کی نسبت الیکوپین نامی مادے کی مقدار1.5 درجے زیادہ ہوتی ہے۔ الیکوپین جسم میں مضر صحت گیسوں کو ختم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ بالخصوص انسانی نشمو نما میں رکاوٹ بننے والی گیسوں کو تلف کرتے ہوئے مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہے۔ الیکوپین جسم میں سرطان کے خطرات کا بھی تدارک کرتی ہے۔
4.                  زرد تربوز
دنیا بھرمیں تربوز کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں۔ زرد رنگ کا تربوز شہد کی طرح شیریں ہوتا ہے۔ اسی طرح سرخ تربوز بھی اپنی مٹھاس اور افادیت میں زرد تربوز ہی کی طرح ہے۔
5.                  بینائی کے لیے مفید
تربوز میں وٹا من A کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو آنکھوں کے لیے انتہائی مفید ہے۔ تربوز کے کثرت استعمال سے آنکھوں کی تمام بیماریاں دور ہوتی اور بینائی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معدے کے امراض کا بھی تدارک ہوتا ہے۔
6.                  پٹھوں کے درد سے آرام
ماہرین کا خیال ہے کہ تربوز کے استعمال سے پٹھوں کی تکالیف میں مبتلا افراد کو بھی آرام ملت ہے۔ چونکہ تربوز سیٹرولین پیدا کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شریانوں اور خون کی نالیوں کی صفائی اور ان کے نظام کو بہتربناتے ہوئے پٹھوں کو بھی تقویت دیتا ہے۔
7.                  وزن میں کمی
تربوز میں کیلوریز کم کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ پانی کی بہت زیادہ مقدار انسانی جسم میں وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تربوز چونکہ پانی کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس کے استعمال سے وزن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
8.                  الٹرا وائیلٹ شعاعوں سے تحفظ
تربوز کے بے شمار فواید میں ایک اہم الٹرا وائلٹ شعاؤں سے انسان کا تحفظ ہے۔ جسم کی جلن، جلدی امراض سے بچاؤ اور جلد کے کینسر سے بھی روکتا ہے۔
9.                  یرقان
جگر کے امراض میں تربوز کی اہمیت کو اطباء نے تسلیم کیا ہے۔جگر کا ٹھیک طور پر کام نہ کرنا، جگر بڑھ جانا، جگر میں گرمی کا پیدا ہوجانا، یرقان جیسے موذی مرض میں رنگ کا زرد ہو جانا، جسم کا گرم رہنا اور ہاتھ پاؤں میں سے گرمی کا سینک نکلنا ان تما م امراض میں تربوز کے 250 ملی لیٹر جوس میں 50 ملی لیٹر سرکہ ملا کر دن میں دو سے تین مرتبہ نوشِ جاں کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
10.             ہائی بلڈ پریشر
جن لوگوں کا خون گاڑھا ہو گیا ہو اور وہ بلڈ پریشر کی شکایت میں مبتلا ہوں ان کے لئے تربوز اپنے مزاج کی وجہ سے عروق اور شریانوں میں نرمی اور لچک پیدا کرتا ہے۔ خون کی حدت کو ختم کرتا ہے۔دل کے تیز دھڑکنے، سر چکرانے اور بڑھے ہوئے بلڈ پریشر کو اعتدال پر لانے میں مفید ہے۔ اس سلسلے میں تربوز کے 250 ملی لیٹر جوس میں ایک درمیانے درجے کے لیموں کا رس نچوڑ کر دن میں چند مرتبہ پینے سے خون پتلا ہو کر ہائی بلڈ پریشر اعتدال پر آ جاتا ہے۔
11.             خارش
گرمی کے موسم میں تر اور خشک خارش دونوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جس کی وجہ سے مریض بہت پریشان ہو جاتا ہے۔اس سلسے میں تربوز کا جوس ایک لیٹر لے کر اس میں 100 گرام املی کو چند گھنٹے بھگو دیں پھر کسی باریک کپڑے میں مَل چھان کر یہ پانی برتن میں نکال لیں۔ یہ پانی تمام دن وقفے سے استعمال کرنے سے خارش ختم ہو جاتی ہے۔
12.             گردوں کی صفائی
تربوز انتہا کا مدرِ بول ہے۔ یہ اپنی پیشاب آور خصوصیت کی وجہ سے پیشاب کی جلن اور رکاوٹ میں بے حد مفید ہے۔یہ جگر اور مثانے کی گرمی مکمل طور پر ختم کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ گردے اور مثانے کی پتھریوں کو بذریعہ پیشاب اپنے ساتھ کھینچ کر باہر لے آتا ہے۔
13.             گرمی کا بخار
یہ اپنی ٹھنڈک اور مزاج کی وجہ سے گرمی کے بخاروں میں خاص طور پر فائدہ کرتا ہے۔ بخار کی وجہ سے ہونے والی دل کی گھبراہٹ، بے چینی اور جسم سے گرمی کی حدت کو ختم کرتا ہے۔ بخار کے اندر تربوز کا جوس پلانا بہت مفید ہے کیونکہ تربوز کے اندر گلوکوز وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔اس لئے یہ فوری طور پر جسم کو توانائی بخشتاہے اور پیاس کی شدت جو بخار کی وجہ سے ہوتی ہے، ختم کرتا ہے۔
14.             معدہ اور آنتوں کے امراض
تربوز پیٹ اور معدے کی سوزش اور جلن ختم کرنے والا بہترین پھل ہے ۔اس کے کھانے سے معدے اور آنتوں کے زخم (السر) مندمل ہو جاتے ہیں۔ اس میں بہی (سفرجل) کی طرح Pectin کی موجودگی اسہال اور پیچش میں مفید ہے۔
15.             پیشاب جل کر آتا
جن نوجوانوں کو پیشاب جل کر آتا ہو وہ سات دن صبح خالی پیٹ اک تربوز کھائیں تو پیشاب کی جلن ختم ہو جاتی ہے اور اک تربوز سے مراد اتنی مقدار ہے کہ طبیعت پہ بھاری نا ہو
16.             ذکاوت حس
ذکاوت حس کا بہترین علاج ہے اس میں
17.             سخت گرمی یا کسی اور وجہ سے رنگ کالاہ
سخت گرمی یا کسی اور وجہ سے رنگ کالاہو جائے تو الٹے سیدھے ٹوٹکے نا آزمائیں بلکہ گرمیوں میں پائے جانے والے سب سے زیادہ پھل تربوز سے فائدہ اٹھائےں ۔ طب نبو ی ریسرچ سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق رنگ گورا کرنے کے لئے تربوز کا ٹکڑا لیں اس پر تازہ لیموں کا رس دو قطرے ٹپکائےں اور چٹکی بھر میٹھا سوڈا مل کر اس ٹکڑے کو چہرے پر رگڑیں 15 بعد چہرہ کو دھولیں، چہرہ نکھر جائے گا۔
زیادہ تربوز کھانے کے یہ نقصانات جانتے ہیں؟

ہیضہ اور دیگر مسائل کا خطرہ
تربوز پانی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے اور غذائی فائبر بھی اس کے ذریعے جزوبدن بنایا جاسکتا ہے، مگر اس پھل کی زیادہ مقدار کھانے سے نظام ہاضمہ کے مسائل جیسے ہیضہ، پیٹ پھولنے، گیس وغیرہ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کی وجہ اس میں موجود جز sorbitol ہے جو نظام ہاضمہ میں گڑبڑ کرتا ہے۔ اسی طرح لائیکوپین بھی اس مسئلے کی وجہ بن سکتا ہے۔
گلوکوز لیول بڑھائے
اگر تو آپ ذیابیطس کے شکار ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ زیادہ مقدار میں تربوز کھانا بلڈشوگر لیول بڑھا دے۔ یہ صحت کے لیے فائدہ مند ضرور ہے مگر اس میں گلیسمک انڈیکس کی موجودگی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے، تو اسے روزانہ کھانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔
حد سے زیادہ پانی
اگر جسم میں پانی کی مقدار بڑھ جائے تو سوڈیم یا نمک کی سطح کم ہوجاتی ہے، جس سے سر چکرانے یا دیگر مسائل ہوسکتے ہیں۔ تربوز کو زیادہ مقدار میں کھانا جسم میں پانی کی مقدار کو بڑھا سکتا ہے اور اگر اس کا اخراج نہ ہو تو یہ خون کا والیوم بڑھا کر ٹانگوں میں سوجن، تھکاوٹ، گردوں کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
بہت زیادہ پوٹاشیم بھی نقصان دہ
تربوز پوٹاشیم کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے اور یہ جز دل کو صحت مند رکھنے کے لیے بہت فائدہ مند ہے جبکہ ہڈیوں اور مسلز کو بھی مضبوط بناتا ہے، تاہم حد سے زیادہ پوٹاشیم جزو بدن بنانا خون کی شریانوں سے جڑے مسائل جیسے دھڑکن میں بے ترتیبی، کمزور دل کی دھڑکن وغیرہ کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
ایک دن میں تربوز کی کتنی مقدار کھانی چاہئے؟
ماہرین کے مطابق سو گرام تربوز میں 30 کیلوریز ہوتی ہیں اور چونکہ یہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے تو اسے آسانی سے آدھا کلو تک کھایا جاسکتا ہے جو کہ 150 کیلوریز کے برابر ہوتا ہے، مگر یہ بھی جان لیں کہ سو گرام تربوز میں 6 گرام مٹھاس یا شوگر ہوتی ہے تو آدھا کلو تربوز میں یہ مقدار 30 گرام تک پہنچ جائے گی۔

توٹ: یہ مضمون عام معلومات عامہ کےلیے ہے ۔ اس پر عمل کرنے سے پہلے اپنے معالج مشورہ ضرور کرلیں

Comments

Popular posts from this blog

Stye ۔ شَعیرَہ ۔ گوہَانجنی ۔ سر خبادہ ۔ آنکھ کا دانہ: علامات, وجوہات اور علاج

Stye ۔ شَعیرَہ ۔ گوہَانجنی ۔ سر خبادہ ۔ آنکھ کا دانہ: علامات, وجوہات اور علاج تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أما بعد میں قربان جاؤں میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم   پے . میں تو خاک تھا ، میں دهول تھا مُجھے کچھ نہ اپنا شعور تھا میرے رب نے کتنا کرم کیا کہ دروُد پڑھنا سکھا دیاصلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم۔   يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَ ما يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبابِ‌ . تحریروماخوذ:۔ تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد اعوذوباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِ

لیکوریاLEUCORRHEA یعنی کہ سیلان الرحم:WHITE VAGINAL DISCHARGE

لیکوریا LEUCORRHEA یعنی کہ سیلان الرحم :WHITE VAGINAL DISCHARGE تحریروتحقیق:طبیبہ ولیڈی ڈاکٹرانجم ناہید: اَلسَلامُ عَلَيْكُم حمد اللہ علیم حکیم کی اور درود خاتم النبی محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم پے اللهم صلی علی محمد عبدك ورسولك وصلی علی المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات اما بعد قارین کرام آج کی یہ معلوماتی تحریر تحقیق آرٹیکل میری ان بہنوں اوربیٹیوں کیلے ہے۔ جن کا ذکر قرآن مجید ميں "محصنت" کے نام کے ساتھ آیا ہے   قارین کرام ہم روز مرا کے آرٹیکل بھی پڑھتے ہیں ان میں اکثر مردانہ ا مراض پرگفتگو ہوتی رہتی ہے مگراس بے زبان طبقہ پر بہت کم ہی نظرہوتی ہے مارے شرم کے کسی سے اپنی بیماری شئیرنہیں کرتی مرض مزمن یعنی پرانہ ہونے کی صورت میں بہت ساری علامات میں مبتلا ہوجاتی ہیں لیکوریا سیلان الرحم کمر کادرد پٹہوں کا درد اورجسمانی کمزوری چہرے پرچھایاں اور بہت سی علامات حتہ کہ رحم اتنی کمزور ہوجاتی ہے کہ بے اولادی تک بات پہنچ جا تی ہے۔ حیا ہمارے تہزیب اور کلچر کا ایک لازمی جزو ہے جس کی حفاظت کرنی چایئے لیکن شرم و حیا اور جھجک صحت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چایئے ۔ ہمارے

ANAL FISTULA, فسچولہ یا بھگندر Symptoms, Types, Homeopathic Medicines, فسچولہ یا بھگندرکا نبوی ﷺ علاج

ANAL FISTULA, فسچولہ یا بھگندر Symptoms, Types, Homeopathic Medicines , فسچولہ یا بھگندرکا نبوی ﷺ علاج Dr Muhammad Arshad March 08, 2018 Is described as a tunnel with its internal opening in anal canal or rectum or sigmoid colon and with its external opening in the skin near the anus SYMPTOMS: علامات 1.       Abscess sign near anus 2.       Pain in abscess 3.       Rupturing of the abscess 4.       Discharge of pus, serous fluid, blood and rarely feces from the opening after abscess rupture 5.       Bad smell from the purulent discharge 6.       Fever may happen 7.       Itching may occur TYPES: اقسام Fistulae are classified into five types: 1)             Extrasphincteric fistula It begins at the rectum or sigmoid colon and proceed downward, through the levator ani muscle and open into the skin surrounding the anus. Note that this type does not arise from the dentate line (where the anal glands are located). Causes of this type could be from a