Skip to main content

نظام انہضام (DIGESTIVE SYSTEM) پرایک جامع وتفصیلی سیرحاصل گفتگو





نظام انہضام (DIGESTIVE SYSTEM) پرایک جامع وتفصیلی سیرحاصل گفتگو
تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أما بعد میں قربان جاؤں میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم  پے. میں تو خاک تھا ، میں دهول تھا مُجھے کچھ نہ اپنا شعور تھا میرے رب نے کتنا کرم کیا کہ دروُد پڑھنا سکھا دیاصلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم۔  يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَ ما يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبابِ‌. تحریروماخوذ:۔ تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد
اعوذوباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" اما بعد

معدی مِعَوِی سبیل (GASTROINTESTINAL TRACT) اصل میں غذائی نالی(ALIMENTARY CANAL) یا نظام انہضام (DIGESTIVE SYSTEM) ہی کو کہا جاتا ہے، ان تینوں الفاظ یا اصطلاحات میں جو بنیادی مفہوم کا فرق ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے اسی مضمون کا قطعہ بنام اصطلاحات دیکھیے۔ طب میں اس نام کو اختیارکرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اصطلاح سے بہت امراض وکیفیات کی جماعت بندی میں سہولت پیدا ہوجاتی ہے۔ معدی معوی سبیل کویہ نام اس کے بنیادی حصوں یعنی معدہ اورامعاء یاآنت کی نسبت سے دیا جاتا ہے جبکہ سبیل(tract)ٹریکٹ کو کہتے ہیں۔ یعنی یوں بھی کہـ سکتے ہیں کہ معدی مِعَوِی سبیل سے مراد اصل میں منہ، معدہ اور آنتوں سے بننے والی نالی کی ہوتی ہے۔ نظام انہضام کے لحاظ سے اس کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ وہ تمام اعضاء وغدود جوغذا کی ابتلاع (ingestion) یعنی معدہ میں داخل کرنے، ہاضمے(digestion) اورانجذاب (absorption) سے وابستہ ہوتے ہیں ملکر نظام ہاضمہ کہلاتے ہیں۔ ان میں منہ اور اس سے منسلک آلات (مثلا زبان، دانت وغیرہ)، بلعوم یا حلق اور پھرمریء (oesophagus)، معدہ، چھوتی آنت، بڑی آنت تا آنت مستقیم تک کے اعضاء اور ان سے متعلق غدود (glands) شامل ہیں۔ یہ تمام اعضاء منہ سے شروع ہوکر مقعد یا شرجی(anus) تک ایک نالی کی صورت میں ترتیب پائے ہوئے ہوتے ہیں اسی لیے انکو طعامی نالی، غذائی نالی (alimentary canal) بھی کہا جاتا ہے۔
انسان توانائی، حرارت اور حرکت حاصل کرنے اور جسمانی نشور نما کے لیے حاصل کرتا ہے۔ اور جو کچھ کھاتا ہے اسے چپانا جسم کے اندر تحلیل کرنا اور جذب کرنے تک کے تمام مراحل اور ان میں حصہ لینے والے اعضاء کو مشرکہ طور پر نظام انہضام کہتے ہیں۔ انسانی خوراک میں مختلف نشاستے(carbohydrates)، لحمیات (proteins)، حیاتین(vitamins) معدنیات (minerals)، روغنیات اورپانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اشیا کا صرف ایک حصہ جزو بدن بنتا ہے۔ باقی ناقابل ہضم حصہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ ہاضمے کے فعل میں سب سے پہلے دانت غذا کو چبا کر باریک کرتے ہیں۔ اس باریک خوراک میں لعاب دہن خود بخود داخل ہوجاتا ہے۔ لعاب ایک ایسا صاف اور شفاف مادہ مائع ہے۔ جو منہ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ خوراک کے ہضم کا عمل منہ سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ منہ سے چبائی جانے والی خوراک حلق سے پیچھے واقع سوراخ بلعوم (pharynx) میں داخل ہو کر نرغے میں داخل ہوتی ہے۔
نظام ہضم Digestive System میں شروع میں جو غیر حقیقی نظام ہضم ہے اس سے شروع کرتے ہیں جس میں سب سے پہلے منہ Mouth کا ذکر کریں گے.
منہMouth
منہ تقریبا" بیضوی شکل کا جوف ہے جس کے اندر دانت زبان اور تالو ہے.. سامنے کیطرف دو لب سائیڈو پہ رخسار. اوپر کی جانب سخت تالو و نرم تالو کا حصہ اور اوپری جبڑے کے دانت اسی طرح نیچلے جبڑے کے دانت. پیچھے نرم تالو و حلق جسے غشائے مخاطی ستر کرتے ہیں.. جو سامنے لبوں کی جلد سے اور پیچھے حلق کی جھلی سے ملی رہتی ہے. عام صحت مند آدمی میں اس جھلی کا رنگ گلابی ہوتا ہے. اسکا رنگ بدلنے سے کیا کیا امراض لاحق ہوتے ہیں یا کن امراص کا مظہر اس کے رنگ بدلنے سے ہوتا ہے اسکا ذکر اگلے راؤنڈ میں کریں گے ان شااللہ.
ہونٹLips
ہونٹ یا لب دو ہوتے ہین جو بیرونی طور پہ منہ کو گھیرتے ہیں بیرونی طور پہ یہ جلد اور اندرونی طور پہ بلغمی جھلی سے گھری رہتی ہے... درمیان میں عضلات و عروق و اعصاب و غدد غشائے مخاطی ہوتے ہیں. ہر ایک لب اپنی اندرونی سطح میں ایک بلغمی چنٹ کے ذریعے جبڑے سے جڑا رہتا ہے.
رخسار cheek
دونوں رخسار cheek منہ کو بیرونی طور پہ دیوار کی طرح گھیرتے ہوئے آگے کیطرف منہ کیساتھ ملے رہتے ہیں. انکی ساخت میں بھی بیرونی طور پہ جلد. اندرونی بلغمی جھلی وعروق وعضلات اوردرمیان میں غددوچربی ہوتی ہے.
مسوڑے Gums
یہ گلابی رنگ کی بلندیاں دانتوں کے گرد ہوتے ہیں. ان میں بھی لمبے ریشے ہوتے ہیں اور بیرونی طور پہ بلغمی جھلی سے گھیرارہتا ہے۔
تالو
اوپر کی جانب سے جوف کو چھت کیطرح ڈھانپتی ہے۔ اگلا حصہ سخت اور پچھلا حصہ نرم تالو کہلاتا ہے۔ سخت تالو میں بالائی جبڑے کی دو ہڈیاں شامل ہیں اور اسکی شکل محرابی شکل کی ہے۔ اس پہ بھی بلغمی جھلی لگی رہتی ہے جس کے نیچے غددوغشائے مخاطی salivary glands ہوتے ہیں۔
ان میں بھی لمبے ریشے ہوتے ہیں اور بیرونی طور پہ بلغمی جھلی سے گھیرارہتا ہے۔ سخت تالو میں بالائی جبڑے کی دو ہڈیاں شامل ہیں اور اسکی شکل محرابی شکل کی ہے۔ نرم تالو سخت رالو کے نیچے ایک متحرک نامکمل پردہ ہے جو جوف دہن اور حلق کے درمیان واقع رہتا ہے.. اس کے نیچے انگور کی شکل کی ایک چھوٹی سی بلندی ہوتی ہئ جسے عموما" کوا کے نام سے جان جاتا ہے...
لبے یا لوزتین
یہ بادامی شکل کی دو گلٹیاں ہین جو حلقوم کے اگلے اور پچھلے حصے کے درمیان واقع ہیں... انکی اندرونی سطح پر بارہ یا پندرہ سوراخ ہوتے ہین جس میں چھوتی چھوٹی تھیلیاں ہوتی ہیں... یہ بلغمی جھلی سے بھری رہتی ہیں اور انہی سوراخون سے یہ جھلی بوقت ضرورت خارج ہوتی ہے. ان گلٹیوں کے اندر اور پیچھے کان کی نالی کا سوراخ کھلتا ہے لہذا ان میں سوزش یا ورم ہونے سے ثقل سماعت پہ بھی اثر پڑتا ہے۔
تھوک کی گلٹیاں۔
ان چھوٹی چھوٹی گلٹیون کے علاوہ چھ بڑی گلٹیاں بھی منہ میں ہیں جو تھوک کی پیدائش و اخراج کا کام سر انجام دیتی ہیں. ان میں سے دو کان کے سامنے. دوزبان کے نیچے اوردوجبڑے کے نیچے گردن میں ہوتی ہین... ان میں سے ہر ایک کا وزن تقریبا" چار ماشہ ہوتا ہے ما سوائے کان کی گلٹیون کے. یہ حجم اور وزن میں بڑی ہوتی ہیں.
دانت
دانتون کے بھی دو زمانے سمجھے جاتے ہیں۔ ایک دودھ کے دانت اور دوسرے دائمی دانت
دودھ کے دانت
یہ دائمی نہیں ہوتے اور بچپن میں ہی گر جاتے ہیں انکی جگہ دائمی دانت لے لیتے ہیں۔ یہ بھی شکل وصورت سے دائمی دانت کے جیسے ہوتے ہین اورانکی تعداد ہر جبڑے میں دس دس کے قریب ہوتی ہے یعنی ٹوٹل یہ بیس ہوتے ہیں۔
دائمی دانتجب دودھ کے دانت گرجاتے ہیں توانکی جگہ نئے دانت نکل آتے ہیں۔ یہ تعداد میں بتیس ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں میں یہ تعداد اٹھائیس یا تیس تک ہو سکتی ہے۔ اور عموما" بیس سے پچیس سال کی عمر تک مکمل ہوجاتے ہیں۔ ان دانتوں کے گرنے کے بعد دوبارہ دانت نہیں آتے۔
زبان۔
زبان جبرے کے نیچے دانتوں کی اندرونی سطح کی ساتھ ساتھ سامنے والے دانتون تک ختم ہوتی ہے۔ اس میں ذیادہ حصہ عضلات کا شامل ہے۔ تھوک کے غدود زبان کی نیچے واقع ہیں۔ اور منہ میں سب سے ذیادہ تھوک اسی کے ارد گرد جمع رہتا ہے۔


جونہی انسان لقمہ ہاتھ میں لیتا ہے تو آنکھون کے اعصاب کے ذریعے دماغ میں اس غذا کے ذائقے کا ایک خاکہ بن جاتا ہے۔ اور دماغ فوری طور پہ حکم بھیج کر تھوک کی پیدائش ذیادہ کروا دیتا ہے۔ اور بعض اوقات من پسند چیز سے تو تھوک اتنی ذیادہ مقدار میں آتا ہے کہ منہ سے باہر رال کی صورت ٹپکنے لگتا ہے۔ بظاہر بالکل عام سی یہ حالت ہے لیکن اگرغورکریں تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کی کاریگری کا کچھ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جیسے ہی غذا کا لقمہ ہاتھ میں آیا تھوک ذیادہ انا شروع ہو گیا۔ یہ مخصوص سینسر کس لئے یہ کام کرتے ہیں اسکے بارے کچھ جان لیتے ہین پہلے۔ غدودوں سے پیدا ہونیوالا تھوک کے فوائد یہ ہیں کہ یہ غذا کو نرم بناتا ہے۔ اسکو ملائم لیس دار کرتا ہے کہ نگلنے میں آسانی ہو۔ غذا کو تحلیل کرتا ہے کہ ہضم ہونے میں کم سے کم وقت لگے۔ منہ اور زبان کو تر رکھتا ہے کہ تکلم میں آسانی ہو۔
لیکن اسکا سب سے اہم کام غذا کو تحلیل کرنا ہے۔ منہ میں ہی یہ غذا میں موجود نشاستہ کو تحلیل کر کے مالٹوز میں تبدیل کرنا شروع کر دیتا ہے جس سے غذا کچھ حد تک میٹھی محسوس ہوتی ہے۔ اب خدا کے نظام پہ غور کریں تو جیسے ہی من پسند غذا سامنے آئی تو ہم معدہ پہ ظلم کرنے سے باز نہیں آتے اس لئے کچھ حد تک دماغ اسکی حفاظت کیلئے یا سہولت کیلئے سمجھ لیں لعاب ذیادہ پیدا کرواتا ہے تا کہ غذا اچھے سے نرم اور تحلیل ہو اور معدہ جلد از جلد اسے ہضم کر سکے۔ لقمہ منہ میں آیا اور دانتوں کی چکی تلے پسائی شروع ہو گئی۔ اب ساتھ ساتھ لعاب شامل ہوتا گیا اور غذا نرم ہو کر اور باریک ہونا شروع ہو گئی۔ جب یہ کچھ باریک ہوئی تو دماغ زبان کو سگنل بھیجتا ہے اور عضلات کیوجہ سے زبان کا اگلا حصہ اوپر کو اٹھ کر سخت تالو سے مس ہوتا ہے اور وہ باریک شدہ غذا حلق میں اتر جاتی ہے۔

بلعوم (حلق)
بلعوم (pharynx) جس کو عام الفاظ میں حلق کہا جاتا ہے۔ دراصل منہ اور ناک کے جوفوں کے پیچھے پایا جانے والا ایک حصہ ہے جس کا جوف تقریباً 12.5 سینٹی میٹر جسامت کا ہوتا ہے۔ یا اسکی لمبائی ساڑھے چار انچ تک ہے. عضلات اور غشاء(musculomemberanous)  سے بنا ہوا غذا کی نالی کا وہ حصہ ہے جو حنجرہ اور ناک منہ کے پیچھے واقع ہوتا ہے۔ اسکا بالائی چوڑا سرا اوپر کھوپڑی سے اور نچلا پانچویں مہرے کے سامنے مری سے ملا رہتا ہے۔ اس میں سات سوراخ ہوتے ہیں جن مین سے دو ناک کے دو کان کی نالیوں کے... ایک حنجرہ... ایک مری اور ایک حلقوم کا ہوتا ہے۔ پھر سے بتاتا ہوں یہ عضلات و جھلی (musculomemberanous) سے بنی ہوئی ایک تقریباً مخروطی شکل کی نالی سی ہوتی ہے جس کا پیندا یوں سمجھیں کہ اوپر کو اور گردن نیچے کو جھکی ہوئی ہو۔ یہ سامنے کی جانب سانس کی نالی اور غذا کی نالی دونوں سے مشترک حصہ ہوتا ہے اور اسی طرح پچھلی جانب بھی یہ دواہم نظاموں (تنفسی اور غذائی) کی نالیوں کے سوراخوں میں کھلتا ہے۔
مری یا خوراک کی نالی (Esophagus)
رغامی یا ہوا کی نالی (Trachea)
مری یا خوراک کی نالی (Esophagus)
مری یا خوراک کی نالی جسے انگلش میں oesaphegus کہتے ہیں... چار تہون پر مشتمل یہ غذا کی نالی معدہ کے چھوٹے خم سے جا ملتی ہے... یہ گردن کے مہروں کے پیچھے قصبتہ الریہ (trachea) کے پیچھے واقع ہے.. یہ نیچے کیطرف جوف صدر (thoracic cavity ) میں داخل ہوتا ہے اور حجاب حاجز (Diaphragm )سے بائین مڑ کر معدہ کے چھوٹے خم کیساتھ مل جاتی ہے
سب سے اندرونی تہہ مخاطی جھلی (mucous membren ) سے بنی ہوتی ہے.. اس سطح پہ چپٹے خلیاط ہوتے ہین جو اسکی اندرونی حفاظت بھی کرتے ہیں... دوسری تہہ میں موجود جھلیاں (mucous glands ) گاڑھی رطوبت پیدا کرتے ہیں جس سے مری تر رہتی ہے اور غذا آسانی سے نگلی جا سکتی ہے۔
تیسری تہہ عضلاتی ہوتی ہے (muscle layer).. اس کے سکڑنے اور پھیلنے سے ہی غذا نیچے اترتی ہے... ان عضلات کے درمیان مخصوص اعصاب بھی ہوتے ہین جو عضلات کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں
سب سے بیرونی تہہ الحاقی نسیج (connective tissues ) سے بنی ہوتی ہے جو مری کو سانس کی نالی کیساتھ جوڑے رکھتی ہے
غذا کا نوالہ جب حلق سے دھکیل دیا جاتا ہے تو یہ مری میں پہنچ جاتا ہے... اور مری مین پہنچی غذا معدہ میں لازمی پہنچتی ہے کیونکہ مری میں موجود لعابی رطوبت اسے رکنے نہیں دیتی لیکن یہ عمل بھی عصلات و اعصاب مل کر سر انجام دیتے ہین.... دماغ اعصاب کو پیغام بھیجتا ہے جس کے نتیجے میں عضلات سکڑتے اور پھیلتے ہین اور نوالہ معدہ میں پہنچ جاتا ہے۔
معدہ
حلق یا مری نالی شکم میں پہنچ کر معدے میں کھلتی ہے۔ معدہ خوراک کو اچھی طرح ہضم کرتا ہے۔ خوراک حلق میں نیچے اترتے وقت ہوا کی نالی(Trachea) کا سوراخ بند ہو جاتا ہے۔ خوراک اس سے اوپر سے گزر کر معدے تک چلی جاتی ہے۔ معدے کے اندر موجود غدود گیسٹرک گلینڈز معدے میں بناتے ہیں۔ گیسٹرک جوس شفاف بے رنگ مادہ ہے جس میں نمک کا تیزاب انتہائی قلیل مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ گیسٹرک گلینڈز میں دو خامرے(Enzymes) پیپسلین (pepsin) اور رینلین(rennin) ہوتے ہیں۔ معدے کے پٹھے پھیل اور سکڑ کر خوراک کو اچھی طرح ہلاتے جلاتے ہوئے اس میں عرقِ معدہ(bile) شامل کرتے ہیں۔ جس سے خوراک ہضم رفیق کیموس کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ خوراک معدے میں پہنچنے کے تقریباً 3 گھنٹے کے بعد کیموس میں بدلتی ہے۔ ایک نارمل انسان کا معدہ تقریباً 24 گھنٹوں میں تقریباً 8 کلو گیسٹرک جوس بناتا ہے۔ آسان الفاظ میں بتاتا ہوں
نظام ہضم کا سب سے کشادہ اور سب سے اہم حصہ.... غذا جب معدہ میں پہنچتی ہے تو قانونی طور پہ اسکا پہلا ہضم یہاں ہی تیار ہوتا ہے... مری کی طرح معدہبھی چار طبقات پہ مشتمل ہے... سب سے اندرونی تہہ لعاب دار جھلی کی اس سے اوپر چپٹے اور خانہ دار نسیج جس میں گاڑھی رطوبت ہوتی ہے... اس سے اوپر عضلاتی تہہ جس مین اعصاب کا بھی کچھ حصہ شامل ہوتا ہے اور سے سے بیرونی غلاف الحاقی انسجہ کا ہوتا ہے... معدہ ادھے چاند کے جیسی شکل لئے ہوتا ہے... اس میں ایک وقت مین ڈیڑھ سے دو کلو یا لیٹر خوراک آ سکتی ہے البتہ یہ مقدار مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے...
حالت صحت مین معدہ کی اندرونی رطوبت جسے انگلش میں میوکس کہتے ہیں نہایت ملائم اور چکنی ہوتی ہے... رنگ پھیکاہوتا ہے.... معدہ جب خالی ہو تو سکڑا ہوا ہوتا ہے اور اس میں چنٹیں لمبی لمبی نمایا نظر آتی ہیں لیکن جب غذا سے تن جاتا ہے تو یہ چنٹیں غائب ہو جاتی ہین اور بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ دیکھنے میں آتے ہیں جن میں دراصل دو قسم کے غدود ہوتے ہیں ایک غدد بلغمیہ جسے انگلش میںmucous glands کہتے ہیں ان سے رقیق سیال رطوبت تراوش پاتی ہے... اور دوسرے غدد ہضمیہ جنہین انگلش میں peptic glands کہتے ہیں جن سے ترش رطوبت معدی یا رطوبت ہاضم تراوش پاتی ہے
رطوبت معدہ یا معدے کے خامرے
پیپسلین(pepsin) نامی خامرہ(enzyme)۔ خوراک میں شامل حیاتین(vitamin) پر نمک کے تیزاب(Nitric Acid) کی موجودگی میں اثر کرتا ہے۔ جس سے حیاتین (vitamin)پیٹیونز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس پر آنتوں(Intestine) کے خامرے(Enzymes) براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ انہی اجزا کی مدد سے خوراک انتڑیوں میں جذب ہو جاتی ہے۔ معدے میں موجود رینلین نامی خامرہ(Enzyme) صرف دودھ کے پروٹین پر اثر کرتا ہے۔ حیاتین(vitamin) سے پیدا ہونے والا مادہ جسم کو توانائی پہنچاتا ہے۔ نشاستے(Carbohydrates) میں شامل چربی اور تیل کے اجزا خوراک چھوٹی آنت(The Small Intestine) میں داخل ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں بتاتا ہوں یہ رطوبت نمکین اور شفاف ہوتی ہے اس مین چار فیصد تیزاب نمک اور ایک جوہر ہاضم ہوتا ہے جسے انگلش میں pepsin کہتئ ہین... یہ غذا مین موجود مواد غاذیہ جسے انگلش میں پروٹینز کہتے ہین اس کو تحلیل و ہضم کرتی ہے اسکا فعل خمیر سے بہت کچھ مشابہ ہے جس طرح خمیر آٹے میں بہت کچھ تغیرات کرتا ہے اس طرح یہ جوہر ہاضم بھی معدہ مین بہت سے تغیرات کرتا ہے غذا کیساتھ.... معدہ جب خالی ہوتا ہے تو یہ رطوبت معدہ تراوش نہیں پاتی اس وقت معدہ رطوبت مخاطیہ سے جو تقریبا" پھیکی اور سور ہوتی ہے اس سے تر رہتی ہے لیکن جیسے ہی غذا معدہ مین داخل ہوتی ہے یہ جوہر ہاضم تراوش پانے لگتا ہے... ایک صحت مند انسان مین یہ جوہر چار سے آٹھ لیٹر تراوش پاتا ہے البتہ غذا میں موجود اجزاء سے اسکی مقدار میں کمی بیشی ہو سکتی ہے جیسے گوشت خورون مین یہ تراوش ذیادہ ہوتی ہے اور جو لوگ سبزیوں کو ترجیح دیتے ہین ان مین یہ کم تراوش پاتی ہے... جب غذا معدہ مین داخل ہوتی ہے تو یہاں موجود غدود دمویہ پھیل خون کی گردش بڑھا دیتے ہین اور یہ رطوبت تراوش پانے لگتی ہے... لیکن یہ رطوبت غذا کو اس وقت ہی ہضم کر سکتی ہے جب اس میں جوہر ہاضم اور ترشی دونوں ہو... ایک کی بھی کمی یا ذیادتی یا غیر حاضری پہ یہ غذا کو تحلیل نہیں کر سکتی..
ہضم معدہ یا معدے کا ہضم
قانونی طور پہ یہ پہلا ہضم ہے... جب غذا معدہ میں پہنچتی ہے تو یہان پہ موجود عضلات گول لمبے چپٹے تینوں کے سکڑنے اور پھیلنے سے غذا ادھر ادھر ہوتی رہتی ہے اور تراوش معدہ سے تحلیل و ہضم کا عمل شروع ہو جاتا ہے... یہان غذا کا تھوڑا تھوڑا حصہ مثل آش جو کے نرم اور پتلا ہو جاتا ہے جسے کیموس کہا جاتا ہے یہی کیموس پہلا ہاضم ہے... کیموس آہستہ آہستہ معدہ کے بڑے خم سے گزر کر چھوٹی آنت میں داخل ہوتا ہے... ایسا نہیں ہے کہ ساری غذا ایک ہی بار میں کیموس میں تبدیل ہو جائے... جو غذا کیموس میں تبدیل ہوتی ہے وہ چھوٹی آنت میں داخل ہو جاتی ہے یہاں قدرتی مقرر دربان صرف کیموس کو ہی چھوٹی آنت میں داخل ہونے دیتے ہین غیر منہضم غذا کو نہیں اور چھوٹی آنت میں پہنچی ہوئی ہضم غذا کو واپس معدہ میں انے سے بھی روکتے ہیں
معدہ میں غذا عموما" چار سے پانچ گھنٹے میں ہضم ہوتی ہے البتہ نرم غذا جلدی اور ثقیل و سخت غذا ہضم ہونے میں ذیادہ وقت لیتی ہے۔
چھوٹی انت
گچھے کی شکل کی لمبی سی ٹیوب چھوٹی آنت کہلاتی ہے۔ جو بڑی آنت(The Large Intestine) تک جاتی ہے۔ اسے بارہ انگستی بھی کہتے ہیں۔ چھوٹی آنت میں تین مختلف قسم کے عرق خوراک ہضم میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لبلبے کا عرق چھوٹے چھوٹے غدودوں(glands) سے نکلتا ہے۔ خوراک آنتوں کی دیواروں سے گزرتی ہوئی دودھیا مادے میں تبدیل ہو کر خون میں جذب ہو جاتی ہے۔ چھوٹی آنت کو اگر کھول کر سیدھا کیا جائے تو اس کی لمبائی 21 فٹ بنتی ہے۔ چھوٹی آنت  معدہ کے بڑے خم کے اخر میں بواب کے ذریعے معدہ سے جڑی رہتی ہے.... اسکی بھی چار تہین ہوتی ہیں... اس کے تین حصے ہوتے ہیں... پہلا بارہ انگشتی... دوسرا خالی آنت... تیسرا پیچیدہ انت... انہی آنتون میں صفرا اور رطوبت بانقراس غذا کی تحلیل میں مدد دیتے ہین... یہ آنت جیسے جیسے بڑھتی ہے اس کے حجم میں بھی تنگی ہوتی جاتی ہے۔
یہ آنت ہلالی شکل لئے ہوئے معدہ کے نیچلے سوراخ سے خالی انت تک پہنچتی ہے جہاں صفرا اور بانقراس کی رطوبت کا ترشح ہوتا ہے۔
معدہ اور مری کی طرح اسکے بھی چار طبقات ہیں سب سے اندرونی لعابی... اس سے اوپر گول و چپٹے عضلات اس سے اوپر بھی عصلات و اعصاب اور سب سے بیرونی آبدار جھلی۔ عضلاتی طبقہ میں عمودی اور گول دو قسم کے ریشے پائے جاتے ہین جب کے سکڑنے اور پھیلنے سے غذا کا ہضم ہونا جاری رہتا ہے.... یہان پہ غذا بالکل سفید دودھی مانند ہو جاتی ہے اس محلول کو کیلوس کا نام دیا جاتا ہے۔
آنت کی اندرونی سطح پر کچھ چھوٹی سی پہاڑیاں ہوتی ہیں جو اسے تولیے کی مانند بنا دیتی ہیں ان میں دراصل غدد جاذبہ ہوتے ہیں جو کیلوس کو جذب کرکے خون میں شامل کرتے ہیں اور فضلہ براہ مبرزخارج کردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آنتون میں ہلالی شکل میں غدد مخاطی سے رکاوٹین بنی ہوتی ہیں جو ترچھی ہوتی ہیں اور یہ غیر منہضم غذا کوروکےرکھتی ہیں تاکہ وہ اچھے سے تحلیل و ہصم ہوسکے۔ آنت کا آخری حصہ اعور یا کانی انت سے ملتا ہے..یہاں بھی ایک چنٹ ہوتی ہے جو دراصل اعصاب و وغشائے مخاطی بھی ہوتے ہیں جو خالی آنت سے آنے والی غیر منہضم غذا کو روکے رکھتے ہیں اورصرف کیکوس کوہی بڑی آنت میں جانے دیتے ہیں۔
بڑی آنت
چھوٹی آنت جہاں پہ ختم ہوتی ہے وہی سے بڑی آنت کا آغاز ہوتا ہے اسکی لمبائی تقریبا" پانچ فٹ تک ہوتی ہے... چھوٹی آنت سے شروع ہو کر یہ مبرزپہ ختم ہوتی ہے. چھوٹی کی نسبت یہ آنت بڑی ہوتی ہے. اس میں چربی بھی قدرے ذیادہ ہوتی ہے. چھوٹی کی طرح اس کے بھی تین حصے ہوتے ہیں کانی آنت فراخ آنت اور سیدھی آنت کانی آنت ایک تھیکی سی ہے جو بڑی انت کے ابتدائی مقام سے لٹکی ہوئی معلوم ہوتی ہےیہ تقریبا" اڑھائی انچ لمبی اور بڑی انت کے دیگر حصوں میں سے سب سے ذیادہ فراخ ہے... یہ پیڑوں میں دائیں جانب ہوتی ہے اس کے پچھلے حصے میں معمولی قلم کے برابر کیچوے کی مانند تین سے چھ انچ تک لمبا ایک ذائدہ ہوتا ہے... جسکو عربی میں زائدہ دودیہ کہتے ہیں.. یہ درمیان سے خالی ہوتا ہے اور اسکی نالی کانی آنت سے ملی رہتی ہے پیچدار آنت اور کانی آنت کے اتصالی مقام پر ایک کواڑی لگی رہتی ہے جسکو عربی میں صمام دقیقی و اعواری کہتے ہیں یہ فضلات کو چھوتی آنت سے بڑی آنت میں آنے تو دیتی ہے لیکن اسے واپس جانے نہیں دیتی..
فراخ آنت
یہ آنت دائیں جانب کے کولھے کیطرف کانی آنت سے ملی ہوتی ہے یہ پہلے اوپربکو جاتی ہے اعر پھر جگر کے نیچے پہنچ کر خم کھاتی ہے... پھر آڑی ہو کر ناف کے اوپر سے بائیں جاتی ہے اور تلی کے نیچے پہنچ کر خم کھاتی ہے... پھر نیچے کو جاتی ہے اور بائیں طرف کے کولہے مین سینی خم کھا کر پیڑو کے جوف کی بالائی حد کے پاس سیدھی آنت کے پاس ختم ہو جاتی ہے.
اس کے چار حصے ہوتے ہیں
  1. قولون صاعد یا چڑھنے والا قولون
  2. آڑی کولون
  3. قولون نازل یا اترنے والا قولون
  4. سینی کولون
چڑھنے والا قولون
یہ دائیں کولھے سے شروع ہو کر اوپر کیطرف جگر کے زیریں سطح سے خم کھا کر آڑی قولون میں ختم ہوتا ہے.. اسکے جگری خم کو عربی میں تعریج کبدی اور انگلش میں ہیپٹک فلیکشر کہتے ہیں...
آڑی قولون
یہ حصہ دوسرے حصوں کی نسبت زیادہ لمبا اور آڑے طور پہ واقع ہے. یعنی ناف کے اوپر سے خم کھا کر تلی کے پاس اترنے والے قولون میں خم کھا کر ختم ہوتا ہے... اسکے طحالی خم کو عربی میں تعریج طحالی اور انگلش میں سپلے نک فلیکشر کہتے ہیں...
اترنے والی قولون
یہ پیٹ میں بائین جانب نیچے اتر کر بائین کولھے کے اندر پہنچ کر تعریج سینی میں ختم ہوتا ہے
سینی خم
یہ قولون کا نہایت تنگ حصہ ہے اور بائیں کولھے سے کچھ آگے بڑھ کر پیڑو کے جوف کی بالائی حد کے پاس سیدھی آنت میں ختم ہوتا ہے..
سیدھی آنت
اسے عربی میں مستقیم اور انگلش میں ریکٹم کہتے ہین کیونکہ یہ دوارے حصوں کی نسبت سیدھا حصہ ہے. یہ فراخ آنت سے شروع ہو کر سوراخ مبرز مین ختم ہوتی ہے... اسکی لمبائی تقریبا آٹھ انچ ہوتی ہے اور سرون سے تنگ اور درمیان سے کشادہ ہوتی ہےاس کے زیریں حصے کو انگلش میں اینس کہتے ہیں. اسکے اختتام پر دو عضلات لگے رہتے ہین جن مین بیرونی ارادی اور اندرونی غیر ارادی عضلات کہلاتے ہین. حالت نفخ میں نہ کھلنے سے یہی عضلات تکلیف کا باعث بنتے ہیں.

غذا جب معدہ میں پہنچ جاتی ہے تو اسکا کافی حصہ ہضم ہو چکا ہوتا ہے لیکن اس میں کچھ غیر منہضم اجزاء بھی شامل ہوتےہیں لیکن یہاں اس قدر محلول کی شکل میں آ چکے ہوتے ہین کہ ان میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے.... نشاستہ دارغذا تو بالکل ہضم ہو چکی ہوتی ہے لیکن لحمیات و روغنیات کا کچھ حصہ غیر منہضم رہ جاتا ہے... اس محلول کو کیموس کہا جاتا ہے جو کہ دو بواب کے ذریعے چھوٹی آنت مین پہنچتا ہے... اس کے اندر موجود ابھار میں لاتعداد غدود ہوتے ہیں جو مل کر اسے اندرونی طور پہ تولیے جیسی شکل دیتے ہیں... یہاں پر ہی لبلبہ اور پتہ اپنی رطوبات گراتے ہین اور باقی مانندہ غیر منہضم غذا بھی مکمل ہضم ہو جاتی ہے اس صورت میں یہ محلول دودھیا شکل کا ہو جاتا ہے جسے کیلوس کہتے ہیں۔
آنتون کے ہضم کے وقت یہاں موجود غدود خون سے پھول جاتے ہیں اور کیلوس میں موجود دہنیت کو جذب کر کے عروق کیلوسہ کی طرف بھیجتے ہیں۔ جو پھر مجری صدر میں چلی جاتی ہے. اور وہ غیر منہضم اجزاء جو معدہ میں ہضم نہیں ہو پاتے یہاں ہضم ہوتے ہیں اور عروق ماساریقا کے ذریعے جذب ہوتے ہیں ان میں شکرولحمیات وروغنیات شامل ہیں.... غذا کا تقریبا" اسی فیصد ہضم چھوٹی آنت میں ہی مکمل ہو چکا ہوتا ہے... روغنی اجزا کا بڑا حصہ تو عروق کیلوسہ کے ذریعے جذب ہو جاتا ہے باقی مانندہ حصہ عروق ماساریقا کے ذریعے جذب ہو جاتا ہے... جب اس محلول میں سے اکثر حصہ جذب ہوچکا ہوتا ہے تو یہ چھوٹی آنت کے سرے پہ پہنچتا ہے اور یہاں اس کا رنگ ذردی مائل ہو چکا ہوتا ہے جس میں براز سی بوہوتی ہے.... یہ محلول یہاں سے گزر کر بڑی آنت میں چلا جاتا ہے۔
جب غذا بڑی آنت مین آتی ہے تو یہاں پہ بھی چھوٹی آنت کی طرح اس میں تغیرات جاری رہتے ہیں لیکن چونکہ اس آنت مین روئی دار ابھار نہیں ہوتا جو کیلوس کو جذب کرتا ہے لیکن یہاں یہ یہ محلول سیال ہو چکا ہوتا ہے اور بالآخر سخت ہو کر بصورت براز مبرز سے خارج ہو جاتا ہے

ٹاپک تو قریب قریب مکمل ہو چکا لیکن ایک سب سے اہم بات جس کیلئے اتنی لمبی تحریریں لکھی ان سب کا مقصد جو تھا وہ لکھ رہا ہوں... گزارش ہے ان لوگوں سے کہ اگر طب سے کچھ محبت ہے تو آج کی تحریر لازمی پڑھیں کیونکہ آج کی تحریر میں تشخیص و علاج دونوں پوائینٹس کو لکھوں گا..... کوئی بھی مرض ہو اسکی جڑ یہاں پہ ہی ملے گی....
انسانی جسم میں غذا جو چار جگہوں پہ ہضم ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے اس کے بارے لکھوں گا شاید تحریر میں ایک دو بار لکھا بھی لیکن پھر سوچا اسے ایک خلاصہ کے طور پہ بیاں کروں گا
ہضم اول
انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے اسکا پہلا ہصم منہ سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور معدہ میں غذا پہنچ کر مثل آش جو ہو جاتی ہے اسے ہی پہلا ہضم ہا ہضم معدی کہا جاتا ہے... اسکا ذکر پہلے ہو چکا.
ہضم دوم
معدہ سے جو غذا چھوٹی انت میں آتی ہے تو یہان موجود ننھے ابھار جو اسے اندرونی طور پہ تولیے کی شکل دیتے ہیں ان کے ذریعے غذا کا بڑا حصہ جگر میں پہنچتا ہے.... اسے ہضم دوم یا ہضم کبدی کہتے ہیں...
یہاں پہنچ کر غذا مزید پکنا شروع ہو جاتی ہے اور تہوں میں بٹ جاتی ہے. سب سے اوپر جھاگ کی صورت میں صفرا جمع ہو جاتا ہے... جو نیچے تلپھٹ کی صورت بیٹھ جاتا ہے وہ سودا اور جو درمیان میں کچی رہ جائے وہ بلغم اور جو پک کر پختہ ہو جائے اسے خون کہتے ہیں یون غذا خلطی صورت اختیار کر جاتی ہے.
یہان صفرا کے دو حصے ہو جاتے ہین کچھ حصہ تو پتہ میں چلا جاتا ہے اور آئیندہ آنے والی غذا پہ ترشح کیلئے تیار ہو جاتا ہے اور باقی حصہ خون میں شامل رہتا ہے.. اسی طرح کچھ سودا تلی میں چلا جاتا ہے اور کچھ خون کیساتھ عروق میں دور دورہ کرتا ہے... بلغم کیلئے کوئی خاص مقام متعین نہیں یہ خون کیساتھ ہی عروق میں دورہ کرتا ہے اور قائم مقام خون کی ذمہ داری بھی انجام دیتا ہے. مطلب یہ کہ جب کسی اعضاء کو خون غذا نہ ملے تو یہی بلخم خون میں تبدیل ہو کر اسکی غذا بن جاتی ہے... چونکہ خون میں سودا.. صفرا اور بلغم شامل ہوتے ہیں تو لہذایہ خون جب عروق میں پہنچتاہے تو یہاں ہضم سوم جسے عروقیہضم بھی کہتے ہیں شروع ہوتا ہے. اب خون رطوبت ثانیہ کی طرف مستحیل ہوتا ہے... رطوبت ثانیہ دو اقسام کی ہین ایک فضول اور دوسری غیر فضول... فضول تو وہ جس کا اخراج جسم سے لازم ہے اور اسکا تعلق کسی عضو سے نہیں... دوسرا غیر فصول جو جزو بدن بن کر جسم کا حصہ بن جاتی ہے...اسکی مزید چار اقسام ہیں....
رطوبت محصورہ
وہ رطوبت جو باریک عروق کے جوف میں بھری رہتی ہے
رطوبت طلیہ
وہ رطوبت جو شبنم کی طرح اعضائے اصلیہ پہ بکھری ہوئی ہے
رطوبت قریبتہ العہد
وہ رطوبت جو اعضاء میں پہنچ کر انکا رنگ اور قوام تو حاصل کر لیتی ہے لیکن انکا قوام حاصل نہ کر سکی اور ہضم سوم سے یہی رطوبت مراد ہے
رطوبت اصلیہ
جس سے زندگی اور صحت کا نطام چل رہا ہے.
ہضم چہارم یا ہضم عضوی
رطوبت ثانیہ جو اعضاء کیلئے تغزیہ بالفعل ہے اعضاء کیطرف مستحیل ہو جاتی ہے
اب دیکھتے ہیں کہ کس ہضم کی خرابی سے کس عضو میں خرابی ہو گی..
ہضم اول میں اگر خرابی ہو گی تو اسکا اثر عضلات پہ ہو گا اور اسکا فضلہ براز ہے
ہضم دوم مین اگر خرابی ہو گی تو اسکا اثر جگر پہ ہو گا اور اسکا فصلہ بول ہے
ہضم سوم میں اگر خرابی ہوگی تو اعصاب پہ اثر ہو گا جنکا مرکز دماغ ہے اور اسکا فضلہ پسینہ و میل ہے.
ہضم چہارم میں خرابی سے امراض ہوائیہ پیدا ہو گے جن کا تعلق روح طبعی کیساتھ ہے اور اسکا فصلہ دخان ہے

تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد

Comments

Popular posts from this blog

Stye ۔ شَعیرَہ ۔ گوہَانجنی ۔ سر خبادہ ۔ آنکھ کا دانہ: علامات, وجوہات اور علاج

Stye ۔ شَعیرَہ ۔ گوہَانجنی ۔ سر خبادہ ۔ آنکھ کا دانہ: علامات, وجوہات اور علاج تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم أما بعد میں قربان جاؤں میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم   پے . میں تو خاک تھا ، میں دهول تھا مُجھے کچھ نہ اپنا شعور تھا میرے رب نے کتنا کرم کیا کہ دروُد پڑھنا سکھا دیاصلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم۔   يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشاءُ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَ ما يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبابِ‌ . تحریروماخوذ:۔ تحریرتحقیق وتدوین:حکیم ڈاکٹرمحمد ارشد اعوذوباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِ

لیکوریاLEUCORRHEA یعنی کہ سیلان الرحم:WHITE VAGINAL DISCHARGE

لیکوریا LEUCORRHEA یعنی کہ سیلان الرحم :WHITE VAGINAL DISCHARGE تحریروتحقیق:طبیبہ ولیڈی ڈاکٹرانجم ناہید: اَلسَلامُ عَلَيْكُم حمد اللہ علیم حکیم کی اور درود خاتم النبی محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم پے اللهم صلی علی محمد عبدك ورسولك وصلی علی المؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات اما بعد قارین کرام آج کی یہ معلوماتی تحریر تحقیق آرٹیکل میری ان بہنوں اوربیٹیوں کیلے ہے۔ جن کا ذکر قرآن مجید ميں "محصنت" کے نام کے ساتھ آیا ہے   قارین کرام ہم روز مرا کے آرٹیکل بھی پڑھتے ہیں ان میں اکثر مردانہ ا مراض پرگفتگو ہوتی رہتی ہے مگراس بے زبان طبقہ پر بہت کم ہی نظرہوتی ہے مارے شرم کے کسی سے اپنی بیماری شئیرنہیں کرتی مرض مزمن یعنی پرانہ ہونے کی صورت میں بہت ساری علامات میں مبتلا ہوجاتی ہیں لیکوریا سیلان الرحم کمر کادرد پٹہوں کا درد اورجسمانی کمزوری چہرے پرچھایاں اور بہت سی علامات حتہ کہ رحم اتنی کمزور ہوجاتی ہے کہ بے اولادی تک بات پہنچ جا تی ہے۔ حیا ہمارے تہزیب اور کلچر کا ایک لازمی جزو ہے جس کی حفاظت کرنی چایئے لیکن شرم و حیا اور جھجک صحت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چایئے ۔ ہمارے

ANAL FISTULA, فسچولہ یا بھگندر Symptoms, Types, Homeopathic Medicines, فسچولہ یا بھگندرکا نبوی ﷺ علاج

ANAL FISTULA, فسچولہ یا بھگندر Symptoms, Types, Homeopathic Medicines , فسچولہ یا بھگندرکا نبوی ﷺ علاج Dr Muhammad Arshad March 08, 2018 Is described as a tunnel with its internal opening in anal canal or rectum or sigmoid colon and with its external opening in the skin near the anus SYMPTOMS: علامات 1.       Abscess sign near anus 2.       Pain in abscess 3.       Rupturing of the abscess 4.       Discharge of pus, serous fluid, blood and rarely feces from the opening after abscess rupture 5.       Bad smell from the purulent discharge 6.       Fever may happen 7.       Itching may occur TYPES: اقسام Fistulae are classified into five types: 1)             Extrasphincteric fistula It begins at the rectum or sigmoid colon and proceed downward, through the levator ani muscle and open into the skin surrounding the anus. Note that this type does not arise from the dentate line (where the anal glands are located). Causes of this type could be from a